ہم ویت نام سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟
25/11/2018 - حکیم محمد عثمان

ہم ویت نام سے کیا کچھ سیکھ سکتے ہیں؟
اس باریہ میرا ویت نام کا تیسرا چکر تھا جس نے مجھے حیرت انگیز طور پر چکرا کر رکھ دیا ۔
ویت ناممیں چند دن قیام کے دوران مجھے بہت کچھ سمجھنے کا موقع ملا ہے ۔ ملک کی تقدیر
بدلنے کے درحقیقت کیسے کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اسکے برعکس ہم لوگ کیا
کررہے ہیں،ان خطوط پر غور کرنے کی ضرورت کا احساس بڑھا ہے۔امریکہ سے دشمنی نسلوں
تک دراز کرنے والے ملک کی امریکہ نوازی دیکھ کر دنگ رہ گیا ہوں کہ اب ویت نام نے بھی
شاید یہ مقبول عام نظریہ اپنے ذہنوں کی کھڑکیاں کھول کر دلوں میں بیٹھا لیا ہے کہ ترقی کرنی ہے
توامریکہ سے دشمن چھوڑنا ہوگی ۔ویت نامیوں نے اپنی قومی غیرت کا اس کے باوجود سودا نہین
کیا ۔اپنی لیڈرشپ پر اعتماد کرکے خود بھی انہوں نے نصاب زندگی بدلا ڈالا ہے ۔اپنی شناخت کے
ساتھ زندہ رہنے والی جاپان کے بعد یہ دوسری بڑی قوم ہے جس نے امریکہ سے بڑی جنگ لڑنے
کے باوجود اپنا آپ منوایا ہے ۔
ویت نام میں ہونے والے اس ایکسپو میں ہمارے ادارے سمیت کئی دیگر کمپنیوں نے بھی شرکت کی
تھی ۔میری عادت ہے کہ میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں خاص طور پر وہاں کے نظام صحت اور
اس ضمن میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیتا ہوں ،میرے خیال میں اس سے بہتر کوئی
اور پیمانہ نہیں ہوسکتا کہ آپ جس ملک جائیں وہاں کے پیمانہ صحت کو ماپ کر ان کی عمومی
ترقی کو جانچنے کی کوشش کریں ۔چین ،روس،کوریا،وسطی ایشیا کے دوروں کے دوران اس
پیمانے پر قوموں کو پرکھا ہے ،یہی عالم ویت نام میں بھی دیکھا ہے ۔کھانے پینے میں اگرچہ انہیں
بھی دنیا بھر میں مروجہ فوڈز کا ذائقہ نصیب ہورہا ہے ،اپنی روایتی غذاوں کے ساتھ بھی جڑے
ہوئے ہیں ۔خاص طور ویت نام کی بریڈ ’’بانہ می‘‘ ایسی سوغات ہے کہ مقامی لوگ تو اس میں کوئی
بھی سبزی یا کسی بھی قسم کا گوشت ڈال کر سینڈوچ اور شوار ما کی طرح کھالیتے ہیں ،سیاحوں
کے لئے بھی اس میں بہت زیاد ہ دلکشی پائی جاتی ہے ۔ہمارے ہاں ڈبل روٹی اور نان وغیرہ کا
جیسے بہت شوق ہے ،ویت نام کی بریڈ کو اس سے زیادہ اہمیت ہے ۔تندور یا توے پر روٹی پکانے
کا رواج نہیں کیونکہ بازار سے ’’بانہ می ‘‘ آسانی سے ارزاں مل جاتی ہے اس لئے لوگ اسکو
ترجیح دیتے ہیں اور روٹیاں پکانے میں وقت ضائع نہیں کرتے نہ تندوورں پر ان کا رش ہوتا ہے،یہ
گندم سے بنائی جاتی ہے اور اس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں ہوتی۔


تندور تو خیر کسی کسی ملک میں نظر آتے ہیں خاص طور ایشیائی ملکوں میں تندوروں کا ہی کلچر
زیادہ پایا جاتا ہے البتہ ویت نام میں نام کے تندور ہی نہیں بلکہ تندوری ریستوران بھی موجود ہیں
،ہوچی منہ میں جائیں تو ان تندور ریستورانوں میں آپ کو،ہندی، ترکش اور ایشیائی کھانوں سے مزہ
دوبالا کرنا نصیب ہوجائے گا ۔بھارتیوں نے ویت نام میں اپنے کھانوں کا بڑا چرچا کیا ہے ۔لوگ
رغبت سے اس جانب جاتے ہیں ۔
ویت نام کے بازاروں میں بھی آپ کو لکشمی بھاٹی اوررائل پارک جیسے لاہوری کھانوں کے
مراکز کی جھلک ملے گی ۔ویت نامی خواتیں اپنے چھابے ریڑھیاں لگا کر دیسی کھانے بیچ رہی
ہوتی ہیں ۔یہ ان کی مشہور آئٹمز ہیں ،مچھلی بھنی ہوئی بھی چاہیں تو آپ کو ان بازاروں میں مل
سکتی ہے ۔ابلے ہوئے انڈے کھانا چاہتے ہیں تو آلو چھولے کے ساتھ ابلا ہوا انڈا بھی طلب کر
سکتے ہیں ،اسطرح کسی چھابے یا ٹوکری میں رکھے انڈے جیسے ہم اپنے شہروں کے پرانے
بازاروں میں دیکھتے ہیں،ہوچی منہ جیسے شہر میں عام ہیں۔ ان بازراوں میں ’’پھو ‘‘نامی ڈش بھی
خاصے کی چیز ہے ۔کھانے میں یہ سوپ جیسی لگتی ہے ،ویت نامی تو اس کو بیف سے بناتے ہیں
لیکن سیاحوں کے لئے چکن سے بھی بنائی جاتی ہے ۔ایک بڑے باول میں چاولوں ،نوڈلز اور چکن
سے بنی اس ڈش کو کھانے میں بڑی احتیاط کی جاتی ہے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ ویت نام میں
کھانے میں ملاوٹ کا تصور نہیں کیا جاتا ۔فاست فوڈز کا بھی چرچا ہے ،ظاہر ہے حرام چیزوں کی
آمیزش والے کھانے بھی عام ہیں لیکن سیاح چاہیں تو اس بارے میں احتیاط کرسکتے ہیں ۔کھانون
میں سلاد کے طور پر ویت نام کی معروف نباتاتی سبزیاں پیش کی جاتی ہیں ۔زیادہ تر کھانوں میں
نباتاتی سلاد دئے جاتے ہیں ،یہی ان کی اچھی صحت کا بھی راز ہے ۔میں نے دیکھا ہے کہ سیاح
عام طور پر ان سلادوں کو پسند کرتے ہیں ۔ویت نامیوں کی کافی کا بھی اپنا سواد ہے ،یہ ’’بونس
کافی‘‘ ہے جسے ویت نام میں کئی طرح سے پیا جاتا ہے ۔آئس کافی ،ایگ کافی یا ہاٹ کافی کے
طور پر اس کو پینے کارواج ہے ۔امیر زیادہ تر بونس آئس کافی پیتے ہیں البتہ مڈل کلاس کے ہاں یہ
کافی گرم قہوہ کا متبادل ہوتی ہے ۔
جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے کہ ویت نام میں بڑی تبدیلی کی وجہ ان کا امریکیوں سے دشمنی ختم
کرنا ہے ۔اس میں اب کوئی مغالطہ اس لئے نہیں ہے کہ ویت نام میں امریکہ نے کافی انویسٹ منٹ
کرڈالی ہے ۔امریکی کمپنیوں کی تعداد بڑھنے سے امریکیوں کا پہناوا بھی یہاں عام ہے ۔پہلے ویت
نامی اپنے کلچر کے مطابق اپنا لبا س پسند کرتے تھے مگر اب امریکی ملبوسات اور برہنگی کا
بھی رواج عام ہے ۔ویت نامی دوستوں نے بتایا کہ اس وقت ویت نام میں سب سے بڑا انویسٹر بھی
ویت نام ہے ،خود اندازہ کیجئے جس امریکہ نے یہاں بیس سال تک تباہی مچائی ،پندرہ لاکھ سے
زائد ویت نامیوں کو مار ڈالا،سارا انفراسٹرکچر برباد کردیا ،اب وہی غیرت مند ویت نامی امریکہ کو
ویلکم کہتے ہیں ۔ کوئی تیس سے زائد امریکی گروپ ویت نام میں انویسٹ منٹ کررہے ہیں ۔ اگرچہ
اس کے لئے انہیں سماجی طور پر شدیدمزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے لیکن کلنٹن کے دور میں
اس پر کافی محنت کی گئی ہے ۔ویت نام امریکیوں کے لئے جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے اس لئے وہ
کاروباری طور پربھی ویت نام میں انویسٹ منٹ کررہے ہیں ۔
زرعت کے میدان میں ویت نام نے بڑی ترقی کی ہے ،امریکی ویت نام کی اجناس امپورٹ کرتے
ہیں ،ویت نامی ایگرومشینری کی بڑی مارکیٹ ہے ۔ویت نام نے امریکہ کے ساتھ جنگ کے خاتمہ
کے بعد (1975) زراعت پر انحصار کرکے اپنا مقدر بدلا ہے ۔میں جب بھی ویت نام کے لہلہا تے
کھیتوں کو دیکھتا اور ان کی ایگرو منڈیوں کا مطالعہ کرتا ہوں ،مجھے پاکستان میں کسان کی غربت
اور اسکے ساتھ کئے جانے والے بدترین سلوک کو یاد کرکے دکھ ہوتا ہے ۔ملک کی ترقی کی
نہریں کسانوں کے ہاتھوں سے نکلتی ہیں ۔ان کا پسینہ معیشت کو خون دیتا ہے تو اقصادی رگوں
میں حرارت پیدا ہوتی ہے ۔ویت نامی اپنے ملک اور قوم سے مخلص ہیں ،جاپانیوں کی طرح انہوں
نے بھی آزمالیاہے کہ غیرت اور محنت آپ کا اثاثہ ہے تو پھر دشمنی پر وقت ضائع نہ کریں اور
اپنی توانائی سے خود کو طاقتور بنائیں ،اسکے بعد اگلا کام سوچیں کہ اب آپ کو کس ملک سے لڑنا
ہے ،اپنی مرضی کا محاذ چن کر آپ جیت بھی سکتے ہیں ۔

متعلقہ تبصرے

  • اس پوسٹ پر کوئی تبصرہ نہیں ہے.

اپنی رائے لکھیں

  • پورا نام
  • آپکا ای میل ایڈریس
  • تبصرہ
  •