ترکمانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر بنانے میں حکومت پاکستان کردار ادا کرے
14/02/2017 - حکیم محمد عثمان

ترکمانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتر بنانے میں حکومت پاکستان کردار ادا کرے
اکستان کے صنعتکاروں اور کاروباری لوگوں نے دنیا بھر میں پاکستانی مصنوعات کے ذریعہ ملک
کو زرمبادلہ مہیا کیا ہے ۔انکی بدقسمتی یہ ہے کہ انہیں اپنی حکومت اور اداروں کی جانب سے
بھرپور مورل سپورٹ بھی نہیں ملتی نہ انہیں اس عزم سے دنیا بھر میں پاکستان کی ایکسپورٹ
بڑھانے کی ترغیب دی جاتی ہے جس جذبہ اور بھرپور معاونت سے دوسرے ممالک اپنی بزنس
کمیونٹی کومدد اور سہولتیں فراہم کرکے ملک کی ترقی اور اسکی اثر پذیری کا دائرہ وسیع کرتے
ہیں۔یہ زیادہ تر ہمارے ایکسپورٹرز حضرات کی اپنی محنت اور سالہاسال کی کاوشوں کا نتیجہ ہے
کہ وہ جہاں اپنے ملک میں سرکاری اداروں کی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہیں وہاں انہیں دوسرے
ملکوں میں مارکیٹنگ کے لئے الگ سے مقابلہ بازی کرکے اپنی جگہ پیدا کرنا پڑتی ہے۔انہیں
دوسرے ملکوں میں بسااوقات ایسی دشواریاں بھی پیش آتی ہیں جو دوملکوں کے بہترین باہمی تعلقات
سے دورہوسکتی ہیں حالانکہ ان ملکوں میں پاکستانی مصنوعات کی ایک بڑی مارکیٹ موجود ہوتی
ہے لیکن ”ٹریڈوار“کے اس دور میں دوسرے ملک اپنے کاروباری اداروں کی گنجائش پیدا کرنے
کے لئے پاکستان کے کاروباری اداروں پر گہرا اثر بھی چھوڑتے اور مشکل حالات پیدا کرادیتے
ہیں ۔اس موقع پر ان کاروباری اداروں کو حکومت اور حکومتی اداروں کی بھرپور مدد چاہئے ہوتی
ہے کہ وہ ان ملکوں کے ساتھ باہمی تجارت یا تعلقات کے لئے بہتر کوششیں کریں۔ترکمانستان کے
ساتھ بھی یہی معاملہ چل رہا ہے۔
ترکمانستان میں دوسال پہلے تک پاکستان کی ہربل انڈسٹری کی ایک طرح سے اجارہ داری اور
خوب مانگ تھی۔پاکستان کی تین بڑی کمپنیاں ہربیان نیچرلز،شاذواور گاراانٹرنیشنل ترکمانستان میں
باقاعدہ رجسٹرڈ کمپنیاں تھیں جو ترکمانستان میں نہایت معیاری میڈیسن ایکسپورٹ کرتی تھیں لیکن
اب حالات یہ ہیں کہ ترکمانستان میں ان تینوں کمپنیوں کے لائسنس کی نہ تو تجدیدکی جارہی ہے نہ
نئی پاکستانی میڈیسن کمپنیوں کی رجسٹریشن …. عجیب بات یہ ہے کہ ترکمانستان حکومت اس
بارے میں کوئی عذر بھی پیش نہیں کرتی ۔گزشتہ ماہ پاکستان کی فارما انڈسٹری کے آٹھ رکنی وفد
نے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد کا دورہ کرنا چاہا تو انہیں ویزہ حاصل کرنے میں شدید
رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔حتیٰ کہ ہربیان جیسی کمپنی جو طویل عرصہ تک سنٹرل ایشیا میں میڈیسن
ایکسپورٹ کرتی رہی ہے اسے بھی دوسال کے انتظار کے بعد ترکمانستان کا ویزہ ملا۔ظاہر سی بات
ہے کہ کوئی بزنسمین دوسری ریاست سے ویزہ کی تاخیر اور بے جا پابندیوں کے بارے میں
استفسار نہیں کرسکتا تاہم پاکستانی حکومت اور ترکمانستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت اس بات کا
تقاضا کرتی ہے کہ ان حالات کا جائزہ لیا جائے کیونکہ ترکمانستان میں ہربل میڈیسن کی مارکیٹ
بہت بڑی ہے اور ترکمانستان حکومت ہربل طریقہ علاج کو فروغ بھی دے رہی ہے ۔
فارما انڈسٹری کے وفد میں شامل مرحبا لیبارٹریزپرائیویٹ لمیٹڈ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو حکیم
محمد عثمان نے اپنے تاثرات کا اظہارکرتے بتایا ہے کہ ترکمانستان میں ہربل مارکیٹ کا مستقبل بہت
روشن ہے۔اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترکمانستان کے صدر نے ہربل ٹریٹمنٹ پر
ایک کتاب شائع کی ہے اور اس کا خوب پرچار کیا جاتا ہے۔پہلے پاکستان سے ہربل میڈیسن
ترکمانستان میں سپلائی ہوتی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر ترکمانستان نے پاکستان کی ہربل
پراڈکٹس پر پابندی لگادی ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ پابندی تحریری طور پر نہیں لگائی گئی
اور نہ کوئی ادارہ اس بات سے انکار کرتا ہے کہ ہم پاکستان سے ہربل پراڈکٹس کیوںنہیں خریدنا
چاہتے۔اس بارے میں اشک آباد میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر عبدالمالک نے ترکمانستان کے وزراءکے
ساتھ ہمارے وفد کی ملاقاتیں کرائی ہیں جبکہ دیگر اہم لوگوں سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ترکمانستان
کے وزرا نے یقین تو دلایا ہے کہ جلد پاکستانی اداروں کی نئی رجسٹریشن اور تجدید کا عمل شروع
کردیا جائے گا لیکن اس پر تاحال کوئی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آتی۔سفیر پاکستان ڈاکٹر عبدالمالک
نے فارماایسوسی ایشن پی پی ایم اے کے چئیرمین حامدرضا کی موجودگی میں کہا ہے کہ وہ چاہتے
ہیں کہ ترکمانستان میں پاکستان کی ہربل میڈیسن کا سکوپ بڑھے لہذا وہ حکومت پاکستان کو اس
معاملے میں مطلع کررہے ہیں تاکہ دونوں ملکوں کے بیچ باہمی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔میں نے
ذاتی طور پر اشک آباد میں یہاں کی مقامی ہربل پراڈکٹس کا جائزہ لیا ہے ۔ترکمانستان کی مصنوعات
کا اپنا معیار بہت کم ہے،پیکنگ بھی عام سی،گلاب کی ڈوڈی کا بزنس کافی زیادہ ہے کیونکہ اس
میں وٹامن سی ہوتی ہے اور ترکمانستان میں اسے عام استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان کا عرق گلاب
دنیا کانمبر ون ہے ،میں نے مرحبا کا عرق گلاب وہاں کئی لوگوں کو پیش کیا تو اسکی مہک اور
معیار کو دیکھ کر اسے سراہا گیا لیکن میں حیران ہواکہ کوئی بھی ٹریڈراپنی حکومت کی لگائی
پابندیوں پر تنقید نہیں کرتااور یورپی اورانڈین اشیا کو پسند کرتا ہے ۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ
پاکستان کی ہربل مارکیٹ بھارت نے خراب کی ہے کیونکہ بھارت کے ترکمانستان کے ساتھ زیادہ
بہتر تعلقات ہیں۔تعلقات تو پاکستان اور ترکمانستان میں ٹاپی گیس منصوبے کی وجہ سے بھی کافی
بہتر ہونے چاہیئں کیونکہ ترکمانستان سے بھارت تک 10 بلین ڈالر کی لاگت سے1800 کلومیٹر
نیچرل گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبے میں افغانستان بھی شامل ہے۔ٹاپی کی سٹڈی پر دوسو
ملین ڈالرخرچ ہوچکے ہیں لیکن اس منصوبے پر پیش رفت کی رفتار بہت سست نظر آتی ہے۔
خدانخواستہ یہ منصوبہ مکمل نہ ہوا تو ترکمانستان کے ساتھ تعلقات مضبوط بنانے کے لئے پاکستان
کو مزید کام کرنا ہوگا۔دیکھا جائے تو پاکستان ترکمانستان کی آزادی کو پہلے تسلیم کرنے والے
ملکوں میں شامل ہے اور پاکستان نے92 ءمیں اپنا سفارت خانہ کھول لیا تھاجبکہ پاکستان نے
ترکمانستان کی دس سالہ جشن آزادی پر ایک شاندار ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔جہاں تک پاکستانی
بزنس مین کا تعلق ہے تو وہ انفرادی طور پر ترکمانستان میں محنت کررہے ہیں لیکن پاکستان کی
حکومت جو اقدامات اٹھا سکتی ہے وہ باہمی کاروبار کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔
ہربیان نیچرلز کے چیف ایگزیکٹو ندیم خالد بھی اس وفد میں شامل تھے ،ان کا کہنا ہے کہ
ترکمانستان کی حکومت پاکستان میں جاری دہشت گردی اور منشیات جیسے معاملات کی وجہ سے
تحفظات کا شکار لگتی ہے۔ اس نے افغانستان کے ساتھ اپنا بارڈر سیل کیا ہوا ہے۔حالانکہ ہم نے
انہیں باور کرایا ہے کہ پاکستان اب ایسے حالات سے نکل چکا ہے ۔ترکمانستان کے منسٹر آف
کامرس سے بھی ملاقاتیں ہوئی ہیں اور منسٹر آف فارن افئیرز سے بھی۔وہ سبھی محض تسلیاں دیتے
ہیں۔ کوئی واضح پالیسی کا اعلان نہیں کرتے،کبھی وہ کہتے ہیں کہ وہ پاکستان آ کر پہلے ہمارے
ادارے اور سیٹ اپ کو دیکھیں گے،کبھی کہتے ہیں کہ آپ ہم سے ایل پی جی گیس لے لو،اب ادویات
کے بدلے ایل پی جی گیس تو نہیں لے سکتے۔ہم نے ترکمانستان کی جڑی بوٹیاں خریدنے کے لئے
رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ یہ کسی طرح ہمارے لائسنس کی تجدید کردیں لیکن اس پر بھی وہ
کوئی بات آگے نہیں بڑھاتے۔البتہ وہ کہتے ہیں کہ ہم آپ کو یعنیHERBIONکو انفرادی طور پر
اجازت دیں گے۔لیکن مجموعی طور پر پورے ملک پر دروازے نہیں کھولیں گے۔یہ حیران کن
پالیسی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکمانستان پاکستان سے نالاں ہے۔دیکھیں اس وقت
ترکمانستان کو پراڈکٹس ایکسپورٹ کرنے میں ترکی سب سے آگے ،اسکے بعد
چین،امریکہ،قازقستان،ایران جیسے سات ملک اپنا اثر رکھتے ہیں البتہ ہربل پراڈکٹس میں پاکستان کو
اجازت مل جاتی ہے تو مقابلہ کیا جاسکتاہے کیونکہ یورپ کی میڈیسن وہاںپانچ گنا مہنگی ہے ،اسکے
مقابلے میں ہماری مصنوعات زیادہ معیاری اور سستی ہیں۔میں نہیں سمجھتا کہ انڈیا کی وجہ سے ہم
پر پابندیاں ہیں ۔ترکمانستان نے انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں کی کمپنیوں کی تجدید نہیں کی اور نہ
ہی نئی انڈین کمپنیوں کی رجسٹریشن کی ہے ۔آذربئیجان میں کچھ ایسی ہی صورتحال ہے جس کو
بدلنے کے لئے حکومت پاکستان کو ٹریڈ ریلیشن شپ پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان ،شاہدنذیرچودھری)

متعلقہ تبصرے

عقیل اشرف : نام
تاریخ : 2017-02-17 06:50:08
بہت خوب

اپنی رائے لکھیں

  • پورا نام
  • آپکا ای میل ایڈریس
  • تبصرہ
  •